ون ویلنگ ، جان لیوا تفریح
اکثر فلموں میں ہوتا ہے کہ ہیروئین ولن کے نرغے میں ہو تو ہیرو موٹر سائیکل پر کئی فٹ رکاوٹیں عبور کرتا ہوا  آتا ہے پھر زمین پر موٹر سائیکل گول گھما کر خوب اسٹائل کے ساتھ سارے غنڈوں کو مار گراتا ہے اور ہیروئین کو بچا کر لے جاتا ہے،لیکن ایسا صرف فلموں میں ہی ممکن ہے کہ موٹرسائیکل کو لیے کئی فٹ کی چھلانگ لگالی، چلتی ہوئی بس کے نیچے سے موٹرسائیکل گزار دی، ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل بھی سنبھالی ہوئی ہے، دوسرے ہاتھ سے دشمنوں کی دھلائی، فلموں میں یہ سب سین ماہر انسٹرکٹرز کی نگرانی میں فلمائے جاتے ہیں۔فلمساز کی یہ کوشش ہوتی ہے کسی بھی انسان کو خطرے میں ڈالے بنا بہترین ایکشن سین فلمائے جائیں تاکہ شائقین کی داد وصول کی جائے۔

یہ ہی ایکشن فلمز دیکھ دیکھ کر نوجوان لڑکے بھی خود کو ہیرو سمجھنے لگ جاتے ہیں.بیشتر کو یہ معلوم نہیں کہ فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے ہیرو بھی ایکشن سین سے کتراتے ہیں اور ان کی یہ سین ڈپلیکیٹ آرٹسٹ کرتے ہیں، تاہم نوجوان لڑکے فلموں کو ہی حقیقت سمجھ کر موٹرسائیکل لے کر گھر سے نکلتے ہیں اور یہ ہی ہیرو گیری ان کی جان لے جاتی ہے یا عمر بھر کی معذوری دے جاتی ہے،عید کے روز سے اب تک چار سو سے زائد زخمی لڑکوں کو اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں لایا گیا ہے،یہ سب ون ویلنگ کے نتیجے میں ہسپتال پہنچے۔ پمز اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق30 لڑکوں کی حالت تشویشناک ہے۔

اب عید پر اس موت کے کھیل کا کیا جواز بنتا ہے ماں باپ ایک، ایک روپیہ جوڑ کر اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل دلاتے ہیں کہ ان بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں تنگی نا ہو،پر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں جوکہ ان کی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی خطرہ ہے۔یہ نوجوان لڑکے گروہ کی صورت میں اچانک شاہراہوں میں آکر مقابلہ شروع کردیتے ہیں کوئی لیٹ کر موٹرسائیکل چلاتا ہے تو کوئی فرنٹ ویل کو ہوا میں کرکے یہ ہی سب کرتب دیکھاتے ہوئے توازن بگڑنے پر یا تو سڑک پر جا گرتے ہیں یا پھر کسی گاڑی کی زد میں آجاتے ہیں۔

اگر ہیلمٹ پہنا ہو تو پھر بھی بچت ہوجاتی ہے، لیکن بحیثیت قوم ہم قانون شکنی کو فیشن سمجھتے ہیں تو اس لیے اکثر ون ویلنگ والے منچلے ہیلمٹ بنا ہی کرتب دیکھاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوتے ہیں،سر زمین پر لگتا اور اس ہیڈ انجری کے باعث فوری طور پر موت ہوجاتی ہے،اگر خوش قسمتی سے جان بچ بھی جائے تو ہاتھ بازو یا ٹانگ تو ضرور ٹوٹ جاتی ہے۔

کبھی ان خود سر نوجوان لڑکوں نے سوچا ہے کہ ان کی اس حرکت کا ان کے خاندان پر کیا اثر پڑتا ہے ماں باپ کتنے ارمان سے یہ سواری خرید کر دیتے ہیں کہ بیٹا محنت کرکے کچھ بن کر دکھائے گا لیکن یہ ہی بیٹے ون ویلنگ کی وجہ سے ہونے والے حادثے میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں،مہنگا علاج ادویات ماں باپ پر مزید بوجھ ڈال دیتی ہیں۔

کچھ داد و تحسین سمیٹنے کے لیے کچھ فیس بک اپ لوڈز کے لیے لڑکے ون ویلنگ کرتے ہیں اور موت کا یہ کھیل صرف ان کو ہی نہیں ان کے خاندان کو بھی تباہ کرجاتا ہے،اکثر لڑکے ون ویلنگ کرتے وقت جب کسی گاڑی کی زد میں آتے ہیں تو وہ شخص خواہ مخواہ میں پھنس جاتا ہے جو گاڑی چلا رہا ہے،حالانکہ قصور صرف ون ویلنگ کرنے والا کا ہوتا ہے جو یہ کرتب کسی میدان میں کرنے کے بجائے شاہراہ پر کرتا ہے اور سب کی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔

حکومت اور ٹریفک پولیس ون ویلنگ پر سخت پابندی عائد کرے،خلاف ورزی کرنے والے کے لیے سزا اور جرمانہ دونوں عائد کیےجائیں۔نوجوانوں کے لیے مختلف کھیلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ اپنا فارغ وقت مثبت سرگرمیوں میں گزاریں،اس کے لیے مزید پارکس کھیلوں کے میدان کی تعمیر نا گزیر ہے،اگر ہم اپنے قوم کے نوجوانوں کو اچھی اور سستی تفریح فراہم کریں گے تو بہت حد تک ون ویلنگ جیسی خرافات میں سے یہ نکل آئیں گے،اس کے ساتھ ساتھ والدین بھی بچوں پر نظر رکھیں اور ون ویلنگ جیسی خونی تفریح کی حوصلہ شکنی کریں۔
Javeria Siddique )twitter @javerias(

0 comments :

Post a Comment

 
Top