ہم بڑے ہوگئے

مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، قہقہے
سب کے سب کھو گئے

ہم بڑے ہوگئے



ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں
بوجھ اوروں کا خود ہی اُٹھاتے رہیں
اپنا دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں
محفلوں میں مگر مسکراتے رہیں
کتنے لوگوں سے اب مختلف ہوگئے

ہم بڑے ہوگئے

اور کتنی مسافت ہے باقی ابھی
زندگی کی حرارت ہے باقی ابھی
وہ جو ہم سے بڑے ہیں سلامت رہیں
ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی
جو تھپک کرسلاتے تھے، خود سو گئے

ہم بڑے ہوگئے


ختم ہونے کو اب زندگانی ہوئی
جانے کب آئی اورکب جوانی ہوئی
دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہوگئے
جو حقیقت تھی اب وہ کہانی ہوئی
منزلیں مل گئیں
ہمسفر کھو گئے

ہم بڑے ہو گئے
ہم بڑے ہو گئے

0 comments :

Post a Comment

 
Top